Allama Khadim Hussain Rizvi

 



خادم حسین رضوی کی وفات کے دن سے سوچ رہا ہوں کہ لکھوں۔ جوں جوں علماء دیوبند کی خادم حسین رضوی کے بارےتحسین بھری آراء پڑھتا رہا۔  ہر بار لکھنے کا ارادہ کیا مگر ہر بار علماء اکرام کے احترام میں خاموش رہا۔ لیکن اب تو حد ہو گئی ہے۔ خادم حسین رضوی بریلوی مسلک کے عالم دین تھے۔ دیوبندیوں کو وہابیوں میں شمار کرتے تھے اور گستاخ رسول سمجھتے تھے۔ اور اپنی تقاریر کو علامہ اقبال کے اشعار کے ساتھ ساتھ مغلضات سے مزین فرمایا کرتے تھے۔ پکے بریلوی تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر ظاہر سمجھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مختار کل ہونا انکا پکا عقیدہ تھا۔ بچپن سے علماء حق سے سنتے آئے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے حاضر ناظر کا عقیدہ رکھنا شرک ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مختار کل سمجھنا بھی شرک ہے۔ دیگر بریلوی مکتبہ فکر کی طرح جہاد کشمیر میں قطعا کسی طرح کے بھی حصہ دار نہ تھے۔ جہاد افغانستان کے بارے انکی رائے بھی دیگر بریلوی مولویوں کی طرح یہی تھی کہ دیوبندی گمراہ فرقہ ہے اور یہ طالبان چونکہ دیوبندی ہیں۔ اس لئیے جہاد افغانستان دیوبندیوں اور امریکہ کی جنگ ہے۔ یہ کفر و اسلام کی جنگ نہیں ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں کبھی بھی کوئی ایک بیان بھی جہاد افغانستان ( طالبان ) کی حمایت میں نہیں دیا ہے۔ نہ ہی علماء دیوبند مثلاً علامہ شامزئی ، مولانا یوسف لدھیانوی ، مولانا اسلم شیخ پوری ، علامہ حق نواز جھنگوی ، مولانا سمیع الحق ، ڈاکٹر عادل خاں رحہم اللہ وتعالی کی شہادتوں پہ کبھی رسما تعزیتی بیان تک نہیں دیا ہے۔ علماء دیوبند کے متعلق انکے خیالات جو شوشل میڈیا پہ موجود ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خادم حسین رضوی کو بھی دیگر بریلویوں کی طرح ہر دیوبندی عالم دین کی شہادت پہ خوشی ہوتی ہوگی۔ ہر شہید ہونے والا دیوبند عالم دین اپنے اپنے میدان کا شہسوار تھا۔ جرات و ہمت کا پہاڑ تھا۔ ہر ایک کی قربانیاں ہمالیہ سے بلند تر ہیں۔ اور ہر ایک کی دین اسلام کے لئیے خدمات سے صدیوں امت مستفید ہوتی رہے گی۔ کسی ایک کے بارے کسی ایک بھی بریلوی مولوی نے یہ نہیں کہا ہے کہ فلاں دیوبندی شہید ہونے والے عالم دین کی دینی خدمات ہمارے لئیے لائق پیروی ہے۔ خادم حسین رضوی صاحب توعلماء دیوبند کو خصوصی کرم فرمائی کے ساتھ اپنے دلفریب انداز میں مغلضات سے بھی نوازا کرتے تھے۔

چونکہ عالم کفر دیوبندیوں ہی کو اپنے قدیم اور جدید تجربات  مثلاً تحریک آزادئ ہند ، خلافت عثمانیہ کی افرادی قوت اور مالی مدد ،کشمیر ،افغانستان ، شام عراق وغیرہ کی روشنی میں سچا اور پکا مسلمان سمجھتے ہیں۔ اس لئیے ہمیشہ ہی مختلف طریق سے دیوبندیوں کو کچلنا عالم کفر کا ایجنڈہ نمبر اؤل رہا ہے۔ پچھلے بیس سال میرے موقف کے گواہ ہیں۔ علماء دیوبند کی دین کے ہر شعبہ میں قربانیوں کی وجہ سے عامتہ الناس علماء دیوبند کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ عام ان پڑھ اور سادہ آدمی بھی علماء حق کی قربانیوں سے متاثر ہوکر دین حق کی طرف راغب ہوتا ہے۔ جو کہ اہل کفر کے لئیے ناقابل برداشت ہے۔ علماء دیوبند کی عوامی پزیرائی روکنے اور علمائے دیوبند کی دینی خدمات کو دھندلا نے کے لئیے ہر زمانے میں خادم حسین رضوی پیدا کئیے جاتے رہے ہیں۔ آسیہ ملعونہ کی رہائی کے وقت یہودو نصاری کے ایجنٹوں کو ڈر تھا کہ دیوبندیوں نے اگر اسلام آباد کا گھیراؤ کرلیا تو آسیہ ملعونہ کو یورپ پہنچانا

ممکن نہ ہو سکے گا۔دیوبندیوں کو روکنے کے لئیے  خادم حسین رضوی کو میدان میں اتارا گیا۔ آسیہ ملعونہ کو بحفاظت یورپ پہنچانے کے بعد کیش رقم تقسیم کر کے دھرنے ختم کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ دھرنے کا کوئی اور ( out come) ماحصل نہیں ہے۔

آسیہ ملعونہ بھی پوپ کے پاس پہنچ گئی اور خادم حسین رضوی صاحب نے بھی دیوبندیوں کا راستہ روکے رکھا۔ اور اب فرانس کے لعنتی میکرون کے بارے سارا پاکستان سراپا احتجاج بنا رہا۔  خادم حسین رضوی صاحب چپ سادھے رہے۔حکومت کو ڈر تھا کہ مولانا فضل الرحمان میکرون لعنتی کے خاکوں کو ایشو بنا کر حکومت کے لئیے مشکلات نہ کھڑی کر دیں۔  اپوزیشن کے جلسوں سے توجہ ہٹانے کے لئیے اچانک خادم حسین رضوی دھرنے کے لئیے بلائے گئے۔ اور دھرنے کے مقاصد حاصل کر لینے کے بعد دھرنا دو بریلویوں کے درمیان معاہدہ طے پا کر ختم کر دیا گیا۔ معاہدے کی شرائط پہ غور کریں تو صاف ظاہر ہے کہ معاہدہ سےعوام کو بے وقوف بنایا گیا ہے۔ معاہدہ کی شرائط سے بھی صاف ظاہر ہے کہ دھرنے کے مقاصد کچھ اور تھے۔ معاہدہ شق نمبر اؤل یہ ہے کہ حکومت پاکستان فرانس سے اپنا سفیر فی الفور واپس بلائے گی۔ جبکہ فرانس میں پاکستان کا سفیر تعنیات ہی نہیں ہے۔ فی الفور کس کو بلایا جائیگا۔ اور معاہدہ وفاقی وزیر اور تحریک لبیک کے سربراہ کے درمیان طے پا رہا ہے۔ کیا دونوں اس بات سے واقفیت نہیں رکھتے تھے کہ فرانس میں پاکستان کی سفیر موجود ہی نہیں ہے تو واپس کس بلا کو بلایا جائیگا۔ شق نمبر اؤل گواہ ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ شق دوئم یہ ہے کہ فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے لئیے قانون سازی کی جائیگی۔ جبکہ یہ بین الاقوامی

طور پہ طے شدہ معاملہ ہے۔ کوئی بھی ملک کسی بھی ملک کے نا پسندیدہ سفیر کو ملک بدر کر سکتا ہے۔ پہلے سے طے شدہ معاملہ کے لئیے کسی طرح کی قانون سازی کی ضرورت ہے ہی نہیں۔ شق دوئم بھی گواہی دے رہی ہے کہ مقاصد کچھ اور تھے۔ تیسری شق یہ ہے کہ فرانس سے ہر طرح کے تجارتی معاہدے تین ماہ تک ختم کر دئیے جائیں گے۔ جو کہ کسی بھی طرح ممکن نہیں ہیں۔ فرانس یورپین یونین کا لیڈنگ کنٹری ہے۔ فرانس سے تجارتی معاہدے ختم کرنا بقیہ چوبیس یورپین ممالک کبھی بھی برداشت نہ کریں گے۔ امریکہ ، آسٹریلیا ، کینیڈا بھی فرانس کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ اس شق سے بھی عوام کو بے وقوف بنایا گیا ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر اور خادم حسین رضوی صاحب جانتے تھے کہ فرانس کا تجارتی بائیکاٹ پاکستان جیسے مقروض ملک کے لئیے ممکن نہیں ہے۔ یہ شق تو دونوں فریق کے ذہنی توازن پہ بھی سوالیہ نشان ہے۔

خادم حسین رضوی صاحب کی وفات کے بعد انکا جنازہ بھی ایک طے شدہ معاملہ ہے۔ خادم حسین رضوی صاحب شہید نہیں ہوئے ہیں۔ کسی ملک دشمن یا اسلام دشمن نے انہیں قتل نہیں کیا ہے۔ انکا امیج حکومت مخالف بنایا گیا تھا۔ انکی وفات کے بعد  ایک سو سے زیادہ ٹی وی چینلز انکی شخصیت پہ لگاتار پروگرام کرتے رہے ہیں۔ ٹاک شو اور خبروں میں سر فہرست خادم حسین رضوی صاحب کو ہی رکھا گیا تھا۔ ہر حکومتی اخبار کی شہہ سرخیاں اور ادارئیے خادم حسین رضوی کے تذکروں سے بھرے پڑے تھے۔ میڈیا کا کمال ہے کہ اس نے کورونا کا وجود منوانے کے بعد خادم حسین رضوی صاحب کو بھی منوا لیا۔ بریلویت تو ہے ہی شخصیت پرستی کا دوسرا نام اوپر سے میڈیا کے تڑکے کا جادو سر چڑھ کر بولا اور خوب بولا۔ یہ ہے جنازے کی حقیقت کہ میڈیا کے سو سے زیادہ چینلز نے لوگوں کے اذہان اپنی گرفت میں لے رکھے۔ اور یہ سب حکومت اور ڈنڈے والوں کے تعاون اور حکم سے ہوا۔آسان الفاظ میں فرشتوں کی زندہ کرامت ہے۔

جتنے بھی علماء دیوبند شہید ہوئے ہیں۔ انکی شہادت کی خبر صرف چند سیکنڈ اور وہ بھی دو یا تین بار۔ تئیس کروڑ عوام کا مشاہدہ گواہ ہے۔

خادم حسین رضوی صاحب پہ میڈیا کی خاص اور بھرپور توجہ میڈیا مالکان ( یہودیوں ) کا منظور نظر ہونا ہی تو ہے۔

 

اور اب یار لوگوں کے لئیے ایک اور دربار بن گیا ہے۔ مشرکانہ شاعری کے ساتھ قوالیاں ہونگی۔ الہڑ  مخلوط جوانیاں  دھمال ڈالیں گی۔ جرس ، افیون ، بھنگ ، کوکین ، ہیروئن کا نیا اڈہ بن گیا ہے۔ نشئیوں کو نیا ٹھکانا مل گیا ہے۔ یہ ایک اور ایسا مزار بن گیا ہے کہ جہاں جیبیں بھی کاٹیں جائیں گی اور ایمان کے جنازے بھی اٹھیں گے۔ اس قبر سے اولادیں مانگی جائیں گی۔ اور عاشق لوگ معشوقہ کے ملنے کے لئیے منتیں بھی مانگا کریں گے۔ ایک اور گدی نشیں ارب پتی بن جائیگا۔ زندہ ہاتھی لاکھ کا مرا سوا لاکھ کا۔ ان سب حقائق اور خرافات کی موجودگی میں نہ معلوم علماء دیوبند کس طرح مسلسل کہہ اور لکھ رہے ہیں کہ خادم حسین رضوی  کی جرات قابل پیروی ہے۔ شائید مجھے متعصب ، تنگ نظر ، کم ظرف ، اتحاد مخالف وغیرہ سمجھا جائے۔ خیر اپنے اپنے ظرف

کی بات ہے۔ ہر شخص ناپنے کا اپنا پیمانہ ( instrument ) رکھتا ہے۔ لیکن حقائق جھٹلائے نہیں جا سکتے۔ میڈیا کے جھوٹ کے پہاڑ کے نیچے چھپائے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ بھی شخصیت پرستی کے بت کو توڑ کر حقائق کی روشنی میں سوچیں گے تو میرے ساتھ متفق ہونگے۔ ان شاءاللہ

Previous
Next Post »