سبط علی صبا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

سبط علی صبا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج اردو کے معروف شاعر سبط علی صبا کی40 ویں برسی منائی جا رھی ھے ۔

تاریخ پیدائش : 11 نومبر 1935 ء

تاریخ وفات 14 مئی 1980 ء

اردو کے خوش گو شاعر سبط علی صباؔ 11 نومبر 1935ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1953ء سے 1960ء تک وہ پاکستان کی بری فوج کے ساتھ وابستہ رہے اور پھر پاکستان آرڈیننس فیکٹری، واہ سے منسلک ہوئے۔

 

صبا کے بچپن ہی میں ان کے والد اپنے مختصر خاندان کو اپنے ساتھ رڑکی (انڈیا) لے گئے۔ صبا کو والد نے آرمی کے ایک سکول میں داخلہ دلوایا۔ پرائمری تک تعلیم صبا نے وہاں سے حاصل کی اور ساتھ ساتھ اپنے والد سے ہی قرآنِ پاک ناظرہ پڑھا۔ گھر کا ماحول مذہبی تھا۔ والد اور والدہ دونوں ہی اپنے مذہبی عقائد کے پکے تھے۔ لہٰذا ابتدا ہی سے آنحضرتﷺ اور اہل بیتؑ سے محبت صبا کے دل میں پروان چڑھنے لگی۔ والد کو مطالعہ کا شوق تھا اور گھر پر مذہبی تقریبات اور مباحثے بھی ہوتے تھے، جن کی وجہ سے اسلامی اقدار اور اسلامی تاریخ سے وابستگی صبا کی شخصیت کا جزو بن گئی۔

 

سبط علی صبا14 مئی 1980ءکوواہ کینٹ میں وفات پاگئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ سبط علی صباؔ نے صرف 44 برس عمر پائی۔ ان کا مجموعہ کلام جس کا نام انہوں نے خود ابرسنگ تجویز کیا تھا ان کی وفات کے بعد ان کے احباب نے طشت مراد کے نام سے شائع کیا۔ سبط علی صبا کی کلیات ابر سنگ کے نام سے اشاعت پزیر ہوچکی ہے۔

 

سبط علی صباؔ کا ایک شعراردو ادب میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔

 

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی

لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالیے

 

صباؔ پر تحقیقی مقالے کے مصنف اختر شاؔد کا کہنا ہے کہ سید سبطِ علی صبا جیسے جدید شاعر کے محض مزدور ہونے کی وجہ سے ان کی شاعری پر تنقیدی و تشریحی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔

منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے

دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے

 

ہم نے تو اپنے جسم پہ زخموں کے آئنے

ہر حادثے کی یاد سمجھ کر سجا لیے

 

میزانِ عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف

اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے

 

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی

لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے

 

لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول

پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لیے

 

ہر حُرملہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھ کر

ماؤں نے اپنی گود میں بچّے چھپا لیے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں وہاں کہیں آسودگی نہیں ملتی

کلوں کے شہر میں بھی نوکری نہیں ملتی

 

جو سوت کاتنے میں رات بھر رہی مصروف

اسی کو سر کے لئے اوڑھنی نہیں ملتی

 

رہِ حیات میں کیا ہو گیا درختوں کو

شجر شجر کوئی ٹہنی ہری نہیں ملتی

 

غنودگی کا کچھ ایسا طلسم طاری ہے

کوئی بھی آنکھ یہاں جاگتی نہیں ملتی

 

یہ راز کیا ہے کہ دنیا کو چھوڑ دینے سے

خدا تو ملتا ہے پیغمبری نہیں ملتی

 

گزر رہی ہے حسیں وادیوں سے ریل صبا

ستم ہے یہ کوئی کھڑکی کھلی نہیں ملتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ھیں

سفر نیا ھے مگر کشتیاں پرانی ھیں

 

یہ کہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا

کہ اس درخت مین کچھ ٹہنہیاں پرانی ھیں

 

ھم اس لئے بھی نئے ھم سفر تلاش کرین

ھمارے ھاتھ میں بیساکھیاں پرانی ھیں

 

عجیب سوچ ھے اس شہر کے مکینوں کی

مکاں نئے ھیں مگر کھڑکیاں پرانی ھیں

 

پلٹ کے گاؤں میں میں اس لئے نہیں آیا

مرے بدن پہ ابھی دھجیاں پرانی ھیں

 

سفر پسند طبیعت کو خوف صحرا کیا

صبا ھوا کی وھی سیٹیاں پرانی ھیں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Previous
Next Post »