Uncategories
حدیث میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) ہوتاپر اعتراضات کا منصفانہ جائزہ
((حدیث میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ( رضی اللہ
تعالی عنہ ) ہوتاپر اعتراضات کا منصفانہ جائزہ)))
ایک بھائی نے واٹس اپ پر ایک رافضی کی تحریر بھیجی
ہے جس میں اس حدیث پر چند اعتراضات ہیں ہم اس مضمون میں انہی اعتراضات کے جوابات دینے
کی کوشش کریں گے۔
پہلے حدیث کا متن ملاحظہ ہو۔
أَخْبَرَنِي
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ الْخُزَاعِيُّ، بِمَكَّةَ، ثنا
أَبُو يَحْيَى بْنُ أَبِي مَسَرَّةَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ
الْمُقْرِئُ، ثنا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ
مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَوْ كَانَ
بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ
الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "
اس حدیث کی تخریج امام احمد نے مسند احمد ، امام
ترمذی نے سنن الترمذی ، امام طبرانی نے ، امام رویانی نے ، امام بیہقی نے ، امام
حاکم نے اپنی کتب میں کی ہے تفصیل کیلئے جامع الاحادیث ،۱۸،ص۱۴۱ کا
مطالعہ کریں۔
(وأخرجه يعقوب بن سفيان في "المعرفة
والتاريخ" 1/462 و2/500، والترمذي (3686) ، وأبو بكر القطيعي في زياداته على
"فضائل الصحابة" لأحمد (519) ، والطبراني في "الكبير" 17/
(822) ، والحاكم 3/85، واللالكائي في "شرح أصول الاعتقاد" (2491) ،
والخطيب في "موضح أوهام الجمع والتفريق" 2/478 من طريق أبي عبد الرحمن
عبد الله بن يزيد المقرئ، بهذا الإسناد. وقال الترمذي: حديث حسن غريب. وقال
الحاكم: صحيح الإسناد، ووافقه الذهبي،وأخرجه القطيعي (694) من طريق وهب الله بن
راشد، عن حيوة بن شريح، به. == وأخرجه أيضاً (498) ، والطبراني 17/ (857) من طريق
يحيى بن كثير الناجي، عن ابن لهيعة، عن مشرح بن هاعان، به. وفي رواية الطبراني:
أبو عشانة بدلاً من مشرح.)
امام حاکم نے اس کی سندکو صحیح کہا او ر امام ذہبی
نے بھی اس کی موافقت کی ۔
(مستدر ک علی الصحیحین ،ج۳،ص۹۲،رقم ۴۴۹۵)
امام ترمذی نے اس کو حسن غریب کہا ہے ۔
((خلاصہ )): یہ حدیث علما کے درمیان مختلف فیہ ہے لیکن
صحیح بات یہ ہے کہ حدیث’’ حسن‘‘ درجہ کی ہے جیسا کہ امام ترمذی نے بیان کیا ہے ۔
اس حدیث کا بنیادی رواوی ’’مشرح بن ھاعان‘‘ ہے ۔
((پہلا بنیاد اعتراض))
معترض نے اسی پر بعض ائمہ جرح و تعدیل کی جروحات
نقل کی ہیں لیکن جہاں اس راوی پر جرح ہے وہاں توثیق بھی منقول ہے ۔
ابن معین نے اس کو ثقہ کہا ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں
ارجو انہ لاباس بہ ۔(الجرح والتعدیل ،ج۸،ص۴۳۲)(تہذیب
التہذیب،ج۱۰،ص۱۵۵)
ابن حبان سے بھی ان کی توثیق کا قول منقول ہے ۔
(خلاصة تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال،ص۳۹۶)
امام ذہبی فرماتے ہیں:
صدوق، لينه ابن حبان.وقال عثمان بن سعيد، عن ابن
معين: ثقة.
(میزان الاعتدال ،ج۴،ص۱۱۷)
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’مقبول ‘‘
کہا ہے ۔(تقریب التہذیب،ص۵۳۲)
(مقبول ای عند المتابعت ۔ساجد)
پھر اس حدیث کے دو شاہد اور ہیں جس کو امام ہیثمی
نے نقل کیا لہذا اگر راوی پر جرح ہوتب بھی ان شواہد کی وجہ سے یہ حدیث کم ازکم
درجہ حسن کو پہنچ جاتی ہے ۔
قال الہیثمی :عن عصمة قال : قال رسول الله صلى
الله عليه و سلم لو كان بعدي نبي لكان عمر
رواه الطبراني وفيه الفضل بن المختار وهو ضعيف ۔ وعن أبي سعيد الخدري قال : قال
رسول الله صلى الله عليه و سلم لو كان
الله باعثا رسولا بعدي لبعث عمر بن الخطاب
رواه الطبراني في الأوسط وفيه عبد المنعم بن بشير وهو ضعيف
(مجمع الزوائد ،۹،ص۶۸)
اس پر یہ جاہلانہ اعتراض نہ کیا جائے جیسا کہ
معترض نے کیاکہ اس میں بھی تو دو راوی ضعیف ہیں ۔اس لئے کہ ضعیف ہیں تبھی تو ہم
اسے حسن کہہ رہے ہیں ۔
((دوسرا اعتراض ))
اس کو امام ابن جوزی نے موضوعات میں ذکر کیا ہے ۔
((جواب ))
امام ابن جوزی کا کسی حدیث کو موضوع کہہ دینا دلیل
اس کے موضوع ہونے کی نہیں وہ اس معاملے میں متشد د تھے اللہ ان کے درجات بلند فرمائے
انہوں نے تو کئی صحیح احادیث کو بھی موضوع کہہ دیا ۔پھر ان کا موقف بیان کرنے میں
بھی دجل و تلبیس سے کام لیا گیا ہے جن روایات پر انہوں نے جرح کی وہ دیگر راویان
سے منقول ہیں اس روایت کے متعلق تو وہ خود امام ترمذی کی تحسین کو نقل کرتے ہیں:
وفي المختصر " لو لم أبعث لبعثت يا عمر
" منكر والمعروف " لو كان بعدي نبي لكان عمر بن الخطاب " حسنه
الترمذي.
(تذکرۃ الموضوعات ص۹۴
Next
« Prev Post
« Prev Post
Previous
Next Post »
Next Post »
Subscribe to:
Post Comments (Atom)

ConversionConversion EmoticonEmoticon